ایران میں رہنے والے غریب شہری کس کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں ، اس کا
اندازہ وہاں کے قبر نما گڑھوں میں رہنے والے غریب لوگوں کی تصویروں سے
بخوبی ہو جاتا ہے۔ کہنے کو تو ایران ایک ترقی پذیر ملک ہے اور ایٹمی طاقت
بننے کی کوشش میں سرگرداں ہے، لیکن وہاں کے قبرستانوں میں رہ رہے زندہ غریب
انسانوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہاں کی حکومت اپنے شہریوں کے تئیں کس قدر
بے حس ہے۔ سیاست ڈاٹ کام کے مطابق، قبرستانوں میں رہ رہے ان بے گھر افراد کی تصویروں
نے ایران کے صدر حسن روحانی کو بھی حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ایران کے فارسی
یومیہ اخبار شہروند نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ تقریبا پچاس مرد، خواتین
اور بچے قبروں میں رہتے ہیں۔ خیال رہے کہ ایران میں بے روزگاری کی سطح بہت
زیادہ ہے اور امریکی ڈالر کے مقابلہ میں ایرانی کرنسی میں زبردست گراوٹ
آئی ہے۔ آسکر ایوارڈ یافتہ فلم ڈائریکٹر اصغر فرہادی نے ان تصویروں سے دل
برداشتہ ہو کر حسن روحانی کو ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے مشورہ
دیا ہے کہ سرکاری افسران ایسی جگہوں پر جا کر دیکھیں کہ لوگ کس طرح کسمپرسی
کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ فرہادی نے لکھا ہے کہ تہران کے قریب
قبرستانوں میں ان سرد
راتوں میں رہ رہے مردوں، خواتین اور بچوں سے متعلق
حیرت انگیز رپورٹ کو پڑھ کر میرا سر شرم سے جھک گیا اور میری آنکھوں سے
آنسو بہنے لگے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تہران کی سڑکوں، فٹ
پاتھوں اور قبرستاںوں میں رہنے پر مجبور شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے
فوری اور موثر اقدامات کرے۔
ہ شدید سردی سے بچنے کے لیے یہ لوگ قبروں میں وقت گذارنے پر مجبور ہیں مگر
انہیں دوسری طرف ایرانی پولیس کے مظالم کا بھی سامنا ہے جو انہیں ان قبروں
میں بھی نہیں رہنے دیتی۔ العربیہ نے مزید لکھا ہے کہ ایرانی قبرستاںوں میں
زندہ شہریوں کی موجودگی پر تہران کے عوامی حلقوں میں سخت مایوسی پائی جا
رہی ہے۔ سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے قبروں میں رہنے والے افراد
سے بات چیت کی تو انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس رہنے کو اور کوئی جگہ نہیں۔
نصیر آباد میں ایسے 300 افراد ہیں جو قبرستانوں کو اپنی رہائش گاہیں بنائے
ہوئے ہیں۔ ان میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ انہیں ہر وقت پولیس کی طرف
سے گرفتاری کا بھی خوف رہتا ہے۔ ایک مقامی شہری نے بتایا کہ پولیس نے کوئی تین سو کے قریب شہریوں کو
قبرستانوں سے گرفتار کرکے سڑکوں پر پھینک دیا اور قبرستانوں کے گیٹ بند
کردیے۔